صدر رئیسی: شاہنامہ ایرانی عوام کی حریت پسندی اور دانشمندی کی علامت ہے

 مشہد مقدس - ارنا – صدرمملکت نے کہا ہے کہ حکیم توس کا شاہنامہ، حریت پسندی، عدل و انصاف، شجاعت،سخاوت، پائیداری اور دانشمندی اور عوام دوستی کی علامت ہے۔  

ارنا کے مطابق صدرسید ابراہیم رئیسی نے  فردوسی کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں جو اسلامی ہدایت و ثقافت کے وزیر محمد مہدی اسماعیل نے پڑھ کر سنایا، کہا ہے کہ وہ عوام جنہوں نے ہمیشہ پائیداری کے ساتھ حق کا ساتھ دیا اورہر جارح سے اپنی سرزمین کو محفوظ رکھا ہے، انھوں  نے رستم کی طرح، اپنے ایمان اور وعدہ صادق الہی پر اعتماد کے ساتھ قلب اہرمن کو نشانہ بنایا ہے۔   

 صدر سید ابراہیم رئیسی نے اپنے پیغام میں کہاہے کہ ایران اسلامی کی تہذیب و ثقافت درخشاں اسلامی تمدن کے پیکر میں ایک عظیم حقیقت ہے ۔ اس تمدن نے مغرب  کے قرون وسطی کی تاریکی میں انسان کی خدا کی متلاشی فطرت میں گوہر فکر کو زندہ رکھا اور آخری پیغمبر الہی کی تعلیمات پر استوار روح معنویت کے ساتھ توحید کی حیاتی تعلیمات کی روشنی سے  بشریت کے مستقبل کو روش کیا ہے۔

انھوں نے اپنے اس پیغام میں کہا ہے کہ اس دیرینہ مشرقی تمدن کے قلب میں ایرانی تہذیب نے ایک پرفیض چشمے کی طرح  نہ صرف اسلامی دنیا کو عظمت عطا کی بلکہ مشرقی و مغربی بیداری کی زنجیر  کے مرکزی حلقے کی حیثیت سے حقیقی تعلیم و معرفت، عدل و انصاف اور دانشمندی پرچم بلند کیا۔

انھوں نے اپنے اس پیغام میں کہا کہ اس طولانی سفر میں، زبان فارسی، عالم اسلامی کی دوسری زبان کی حیثیت سے ، کلام الہی کے ہمراہ ہمیشہ خاندان عصمت  و طہارت سے محبت و عقیدت کی زبان گویا رہی اور گزشتہ ایک  ہزار برس سے زائد عرصے میں اس سرزمین سے ایسی عظیم ہستیاں ابھر کر سامنے آئی ہیں کہ جنہوں نے ادب و تفکر بشری کے شاہکار خلق کئے ہیں اور دین اکمل الہی کے سائے میں تاریخ ایران کے پیکر میں نئی روح پھونکی ہے۔

انھوں نے اپنے پیغام میں  کہا ہے  کہ فردوسی صرف ایک شاعر ہی نہیں تھے بلکہ انہیں ایران اسلامی کی تہذیب و ثقافت کی علامت سمجھنا چاہئے جنہوں نے  اپنی ایران دوستی اور خاندان عصمت و طہارت سے خاص محبت و عقیدت کے سائے میں ایرانی تشخص کو اجاگر کیا۔

 صدر ایران نے اپنے پیغام میں کہا کہ فردوسی نے اپنے شاہنامے  کے پیکر میں نظم کا ایک فلک بوس قصر اورحماسی ادب کا ایک عظیم قلعہ تعمیر کیا جس کی بنیاد زبان فارسی اور اس کا مینار حب علی ہے۔     

 

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .